• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

طلعت نفیس

جدید طرزِ تعمیر کے بعد کوٹھی کا حُسن دوبالا ہوگیا تھا۔ تمام آسائشوں، زیبائشوں سے مزین ہو کر ہزار گز کی کوٹھی کچھ اور بھی نکھر گئی تھی، مگر اتنی بڑی کوٹھی میں رہائش پذیر صرف دو نفوس راشد اور خالدہ راشد۔ صُبح جب راشد صاحب نمازِ فجر ادا کر کے آرہے تھے، اُن کے گھر کے عین سامنے ایک کُتیا زخمی حالت میں پڑی تھی اور شاید بھوک سے بھی نڈھال تھی۔ وہ گھر آئے اور چوکی دار کو ساتھ لے گئے تاکہ ان کے ساتھ اُسے اُٹھا کر گھر لے آئے، مگر یہ ساری کارروائی خالدہ بیگم سے مخفی تھی۔ ایک بڑے سے پیالےمیں دودھ بَھر کر اُس کے سامنے رکھا گیا اور وہ سارا دودھ غٹاغٹ پی گئی۔

صُبح کا سپیدہ دھیمے دھیمے رات کی سیاہی اپنے وجود میں سمیٹتے نمودار ہورہا تھا۔ آسمان پر سورج کی نرم نرم کرنیں پھیل رہی تھیں۔ اوائل اگست کی بھیگی بھیگی ٹھنڈی پُروا نے موسم کو کچھ اور بھی دل کش کر دیا تھا۔ ’’کہاں رہ گئے تھے آپ…؟؟ خاصی دیر لگا دی۔‘‘ خالدہ بیگم نے قدرے تشویش سے پوچھا۔ ’’کچھ نہیں، بس یوں ہی تھوڑی دیر ہوگئی۔‘‘ راشد صاحب نے جان بوجھ کر کُتیا کا تذکرہ گول کر دیا، کیوں کہ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ خالدہ بیگم کو کُتوں سے سخت چڑ تھی۔ 

گو کہ پسند تو راشد صاحب کو بھی نہ تھے، مگر اُن کی فطری رحم دلی آڑے آگئی کہ وہ کُتیا کو اس حالت میں دیکھ نہ سکے اور اُسے گھر لے آئے۔ راشد صاحب اور خالدہ بیگم ماشاءاللہ صاحبِ اولاد تھے۔ کُل چار بچّے تھے۔ تین بیٹے اور ایک بیٹی، مگر چاروں کے چاروں دُور دیسوں کے باسی تھے۔ پوتے پوتیاں، نواسے نواسیاں بھی تھے، مگر پھر بھی تنہائی شاید اُن کا مقدر تھی۔ جن بچّوں کے لیے پوری جوانی، اپنا سب سُکون آرام تج دیا، وہ پَر نکلتے ہی گھونسلا خالی کر گئے۔

یہ کوٹھی، راشد صاحب کے والد کی تھی اور وہ چوں کہ اپنے والدین کے اکلوتے اور نہایت ہی فرماں بردار تھے، تو والدین کی وفات کے بعد اُن ہی کےحصّے آئی۔ راشد اور خالدہ دونوں ایک ہی کالج میں لیکچرار تھے۔ دورانِ ملازمت جب راشد صاحب کو اپنی سیدھی سادی سی کولیگ خالدہ بہت پسند آگئیں، تو اُنھوں نے فوراً سے پیش تر والدین ہی کو آگاہ کیا کہ خالدہ نے بھی اُن کے اظہارِ پسندیدگی پر جُھکی جُھکی پلکوں، پتّے کی طرح لرزتے دل کے ساتھ اِسی شرط پر ہامی بھَری تھی کہ وہ اپنے والدین کو اُن کےگھر بھیجیں گے۔ 

اور یوں بِناء کوئی سماج کی دیوار حائل ہوئے، دونوں نے ایک کام یاب زندگی کی رہ گزر پر قدم رکھ دیا۔ اُن دنوں خوشیوں نے ’’راشد ولا‘‘ کا احاطہ کیا ہوا تھا۔ راشد ولا، جہاں کبھی خموشی کا ڈیرہ ہوتا تھا کہ اِک اکلوتے، خاموش طبع راشد کا بیش تر وقت کتابوں ہی کی ہمراہی میں بسر ہوتا تھا۔ اب راشد کے والدین، راشد، خالدہ اور اُن کے تین بیٹوں اور ایک بیٹی کے ساتھ ہمہ وقت شور شرابے، بلند بانگ قہقہوں، شوخیوں، شرارتوں ہی سے گونجا کرتا۔

دادا ،دادی اپنے پوتے پوتیوں کی نظر اتارتے نہ تھکتے۔ دادا، اکثر دادی سے کہتے۔ ’’مَیں آپ سے کہتا تھا ناں کہ ایک بیٹے سے ایک گاؤں بستا ہے۔ تو یہ ہے، میری پھلواری۔‘‘ وہ چاروں بچّوں کو اپنی بانہوں میں سمیٹ لیتے۔ خالدہ بھی بہت نیک، سگھڑ اور فرماں بردار بہو تھیں۔ اپنی خدمت و اطاعت سے ساس، سُسر کو اپنا گرویدہ کر لیا تھا۔ مگر پھر اللہ کا کر نا ایسا ہوا کہ دونوں ہی آگے پیچھے جنّت مکانی ہو گئے۔

راشد صاحب اورخالدہ بیگم نے اپنے چاروں بچّوں کو اعلیٰ تعلیم و تربیت سے آراستہ و پیراستہ کیا کہ وہ دونوں خود بھی تو اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے۔ بچّے بڑے ہوگئے اور مُلک کے حالات بھی خاصے بدل گئے۔ اب کچھ ریٹائرڈ افراد ہی تھے، جو اپنے مُلک کی شدید محبت میں گرفتار رہ گئے تھے، جب کہ مُلکی حالات دیکھتے ہوئے وہ بھی سخت متفکّر ہی رہتے۔ زیادہ تر نوجوان تو یک سر مایوس اور بے زار ہو کر بس باہر ہی نکلنے کے چکر وں میں تھے۔ 

پہلے اُن کی بیٹی شادی ہوکر کینیڈا چلی گئی۔ اُس کے بعد بڑا بیٹا، جو ایک پرائیویٹ بینک میں ملازم تھا، چھانٹی میں نکالا گیا، تو بد دل ہو کر بیوی بچّوں کے ساتھ لندن کی جانب عازمِ سفر ہوا۔ پھر دوسرے بیٹے نے بھی بھائی کے پیچھے پیچھے لندن ہی کُوچ کیا۔ بس، ایک چھوٹے بیٹے کو والدین سے شایدکچھ زیادہ محبت تھی، تو اس نے دوبئی ہی جانے پر اکتفا کرلیا۔ اور …یوں راشد صاحب اور بیگم راشد تنہا رہ گئے۔

کبھی عید، بقرعید پر سب جمع ہوتے، تو چار چھے دن کےلیے رونق میلہ ہوجاتا، وگرنہ سناٹوں کے دبیز سائے ہی چھائے رہتے۔ چوکی دار نے کُتیا کے لیے سرونٹ کوارٹر کے پیچھے لکڑی کا گھر بنا دیا تھا۔ خالدہ بیگم کو جب کُتیا کے بارے میں پتا چلا تو اُنہوں نے بہت شور مچایا کہ نجس ہے، ناپاک ہے۔ مگر راشد صاحب نے یقین دلایا کہ وہ صحن میں ہی رہے گی۔ کچھ دن بعد کُتیا کے چار بچّے ہو گئے۔ خالدہ بیگم بھی بچوں کو دیکھنے کم ازکم ایک مرتبہ لازمی لکڑی کے ڈبّے میں ضرور جھانکتیں۔ کُتیا بھی سب سے مانوس ہو گئی تھی۔ 

مگر کُتیا اور اُس کے بچّوں کو دالان سے اندر آنے کی ممانعت تھی۔ ’’امّی! مَیں ایک کانفرنس میں شرکت کے لیے فرانس جا رہا ہوں، بچّوں کی بھی چھٹیاں ہیں ، تویہ بھی فرانس گھوم پھر لیں گے۔‘‘ چھوٹا بیٹا ویڈیو کال پر تھا۔ دادی نے ویڈیو میں بچّوں کو کُتیا کے ننّھے منّے بچّے دکھائے، تو وہ دیکھ کر بہت خوش ہو رہے تھے۔ ’’بچّوں کو پاکستان بھیج دویار!‘‘ راشد صاحب نے بیٹے سے کہا۔ ’’نہیں دادو! ہم فرانس گھومیں گے۔‘‘ بچّے فرانس جانے کے لیے بےتاب ہو رہے تھے۔ ’’اچھا ٹھیک ہے۔‘‘ راشد صاحب نے مُردہ سے لہجے میں جواب دیا۔

’’اچھا امّی! فلائٹ کے لیے نکل رہے ہیں۔ فرانس پہنچ کر کال کروں گا۔‘‘ فرانس کی فلائٹ سے پہلے بیٹے نے جلدی جلدی بتایا اور کال کاٹ دی۔ رات میں خالدہ بیگم کی آنکھ کُھلی تو راشد صاحب بستر سے غائب تھے۔ وہ ننگے پاؤں باہر آئیں، تو وہ صحن میں کھڑے گہرے گہرے سانس لے رہے تھے۔ ’’کیا ہوا…؟؟‘‘ 

اُنہوں نے گھبرا کر پوچھا۔ ’’اندر مجھے سانس نہیں آرہی تھی، بہت گھبراہٹ ہورہی تھی۔‘‘ وہ زور زور سے کھانسنے لگے۔ اُن کا ڈرائیور رات میں گھر چلا جاتا تھا۔ خالدہ بیگم نے چوکی دار کو انٹرکام کیا۔ وہ تیزی سے اندر آیا۔ کُتیا خالدہ بیگم اور راشد صاحب کے اردگرد بے قراری سے چکر کاٹ رہی تھی۔ ایمبولینس آئی۔ راشد صاحب کو شہر کے سب سے اچھے اسپتال لے جایا گیا۔ منہگا ترین اسپتال، قابل ترین عملہ، مگر ہارٹ اٹیک جان لیوا ثابت ہوا۔

تجہیز و تکفین میں بس کچھ دُور پار کے رشتے دار، خالدہ بیگم اور راشد صاحب کےمشترکہ دوست اور راشد صاحب کے مسجد کے ساتھی وغیرہ ہی شریک تھے۔ سب بچّوں نے ویڈیو پر باپ کا آخری دیدار کیا۔ بچّے بہت رو بھی رہے تھے۔ چھوٹا بیٹا بہت پچھتا رہا تھا کہ اے کاش! وہ باپ کی بات مان لیتا۔ ماں کو بھی تسلیاں دیں کہ ہم جلد پاکستان آئیں گے۔ جہاں اُن کی کوٹھی تھی، وہاں محلے پڑوس میں بھی کچھ خاص واقفیت نہ تھی۔ جنازے کے بعد دھیرے دھیرے سب رخصت ہو گئے۔

گو کہ آنسوؤں کے سوتے خشک ہوچُکے تھے۔ مگر خالدہ بیگم کا تو رواں رواں آنسو تھا کہ چالیس سالہ طویل، خُوب صُورت رفاقت کا ایک ایک پل ایک درد، کراہ بن کے ہونٹوں سے نکلتا تھا۔ دل میں اُترتی ویرانی اور گھر میں پھیلے مہیب سناٹے خالدہ بیگم کو نگل رہے تھے۔ 

دائیں کاندھے پر گردن گرائے، آنکھیں بند کیے خالی الذہنی کے ساتھ وہ تسبیح پر انگلیاں پھیر رہی تھیں، جب اُنہیں یکایک محسوس ہوا کہ کوئی اُنہیں دروازے سے باہر کھڑا دیکھ رہا ہے۔ اُنہوں نے بے اختیار ہی بانہیں پھیلا دیں اور … وہ اُن کی تنہائی دُور کرنے کے لیے اپنے چاروں بچّوں کے ساتھ آکر ان کے پیروں سے لپٹنے لگی۔ خالدہ بیگم اُس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے پُھوٹ پُھوٹ کر رو دیں۔

سنڈے میگزین سے مزید