• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جسٹس فائزعیسیٰ کیس کی سماعت کرنے والا بینچ تحلیل

 جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کے ریفرنس سےمتعلق دائرآئینی درخواستوں پرسماعت کرنےوالا سپریم کورٹ کا 7 رکنی بینچ تحلیل کر دیا گیا، بینچ نے معاملہ نئےبینچ کی تشکیل کے لیے چیف جسٹس کو بھجوادیا۔

واضح رہےجسٹس فائز عیسیٰ کے وکیل منیر ملک نے بینچ میں شامل ججز پر اعتراض اٹھایا تھا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ریفرنس سے متعلق دائر آئینی درخواستوں پر لارجر بینچ کی سماعت ہوئی، جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 7 رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی ، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل منیر اے ملک نے عدالت میں دلائل پیش کیے۔

یہ بھی پڑھیے: حکومت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو نہیں ہٹا سکتی، چیف جسٹس

لارجر بینچ کی آئینی درخواستوں پر سماعت کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل منیر اے ملک نے بینچ پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کے ارکان کے علاوہ باقی ججز پر مشتمل فل کورٹ بنایا جائے، جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دئیے کہ وہ یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ اس عدالت کا کوئی بھی جج متعصب نہیں ہے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے وکیل منیر اے ملک سے استفسار کیا کہ کون سا جج متعصب ہوسکتا ہے؟ جسٹس عمر عطا بندیال نے منیر اے ملک سے یہ بھی کہا کہ انہیں اداروں کو مضبوط کرنے کے لیےکھڑا ہونا چاہیے۔

اس پر وکیل منیر اے ملک نے کہا کہ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ کوئی بھی جج متعصب ہے، عوام کا عدلیہ پر اعتماد ہونا ضروری ہے، اعتماد نہ ہو تو انصاف نہیں ہوسکتا، اس بینچ میں کچھ ججز کو مقدمہ سننے سے انکار کر دینا چاہیے تھا۔

یہ بھی پڑھیے: غیر ممنوعہ بور اسلحہ لائسنز‘ جسٹس قاضی عیسیٰ کے حکومتی پالیسی پر سوالات

جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے مکالمہ کرتے ہوئے منیر ملک سے کہا کہ ابھی ججز پر مزید دلائل سننا چاہتے ہیں، کون سے عوامل سے جج کی جانبداری ثابت ہوتی ہے، اس عدالت کا ہر جج اپنی ذمہ داری آئین اور قانون کے مطابق ادا کرتا ہے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے مزید کہا کہ اس عدالت کے کسی جج کو کسی مقدمے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے، جج کی جانبداری کا کہہ کر آپ غلط جانب جا رہے ہیں، ہم تعصب یا جانبداری پرمزید دلائل سننا چاہتے ہیں۔

سماعت کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل منیر اے ملک نے دلائل پیش کرتے ہوئے  کہا کہ جن ججز کے مفادات اس سے جڑے ہیں وہ اس بینچ کا حصہ نہ ہوں، جن ججز نے چیف جسٹس بننا ہے ان کی اس کیس میں دلچسپی ہے، اس بینچ کے 2 ججز ممکنہ چیف جسٹس بنیں گے، ان کا براہ راست مفاد ہے، چیف جسٹس بننے سے ان کی تنخواہ بڑھے گی، میرے موکل کی ہدایت ہے کسی ذاتی فائدے کے لیےجوڈیشری پرکوئی حرف نہ آنے دیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل منیر ملک نے مزید مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت پوری قوم کی نظریں اس کیس پر ہیں، اس درخواست میں کچھ معاملات حساس ہیں جن پر بات ہوئی۔

انہوں نے چیف جسٹس کی تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ چیف جسٹس نے عدالتی سال 2018 کے آغاز کی تقریب پر خطاب کیا، چیف جسٹس نےکہا کہ احتساب کے عمل سے غیر متوازن اور پولیٹکل انجینیئرنگ کا تاثر مل رہا ہے، احتساب کا عمل جوڈیشل انجیئنرنگ کے لیے بھی استعمال ہو رہا ہے، انصاف ہوتا ہوا نظر آنا چاہیے، قانون کی حکمرانی کا حتمی دفاع عوام کرتے ہیں۔

منیر اے ملک نے کہا کہ  چیف جسٹس کی تقریر کے دوران جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس باقر موجود نہیں تھے۔

جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے منیر اے ملک کو جواب میں کہا کہ آپ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صاحب کے وکیل کی حیثیت سے آئےہیں، ہم آپ کے آنے سے بہت خوش ہیں، آپ بڑے فاضل وکیل ہیں، جسٹس خواجہ کا فیصلہ موجود ہے، اس فیصلہ کے مطابق جج بطور جج کسی کو نہیں جانتا۔

وکیل منیر اے ملک نے کہا کہ میرے موکل کی ہدایت ہے کہ عدلیہ کا تشخص خراب نہیں ہونا چاہیے، بار کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، اس بینچ میں کچھ ججز کو مقدمہ سننے سے انکار کر دینا چاہیے، کوئی جج اپنے کاز کا جج نہیں ہو سکتا۔

جسٹس عطا بندیال نے مزید کہا کہ عدالت کے کسی جج کو کسی مقدمے میں کوئی دلچسپی نہیں، ججزکی ذاتی مفاد کی باتیں صرف افواہوں کا دروازہ کھولیں گی ، ججز نے آپ کو سن لیا، وہ فیصلہ خود کریں گے۔

تازہ ترین