• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

70 افراد کے جلنے پر شیخ رشید استعفیٰ دیتے، چیف جسٹس

سپریم کورٹ میں ریلوے خسارہ کیس کی سماعت




چیف جسٹس نے شیخ رشید سے کہا ہے کہ ریل میں 70 افراد کے جلنے کے واقعے پر تو آپ کو استعفیٰ دے دینا چاہیے تھا۔

ریلوے خسارہ کیس کی سماعت کے دوران وفاقی وزیرِ ریلوے شیخ رشید احمد سپریم کورٹ آف پاکستان میں پیش ہو گئے۔

چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔

وزیرِ ریلوے کے وکیل نے سماعت کے موقع پر عدالت کو بتایا کہ عدالتی حکم پر وزیرِ ریلوے عدالت میں پیش ہیں۔

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ وزیر صاحب بتائیں کیا پیش رفت ہے؟ آپ کا سارا کٹا چٹھا تو ہمارے سامنے ہے۔

چیف جسٹس نے شیخ رشید سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ریل میں 70 افراد کے جلنے کے واقعے پر تو آپ کو استعفیٰ دے دینا چاہیے تھا۔

یہ بھی پڑھیئے: گوجرانوالہ کے ریلوے گودام میں آگ بے قابو

چیف جسٹس گلزار احمد نے سوال کیا کہ 70 لوگ جل گئے بتائیں کیا کارروائی ہوئی؟

شیخ رشید نے جواب دیا کہ 19 لوگوں کے خلاف کارروائی کی ہے۔

چیف جسٹس گلزار احمد نے سوال کیا کہ گیٹ کیپر اور ڈرائیورز کو نکالا، بڑوں کو کیوں نہیں نکالا؟

شیخ رشید نے جواب دیا کہ بڑوں کے خلاف بھی کارروائی ہو گی۔

چیف جسٹس نے شیخ رشید سے کہا کہ بتا دیں 70 آدمیوں کے مرنے کا حساب آپ سے کیوں نہ لیا جائے، سب سے بڑے تو آپ خود ہیں؟

انہوں نے کہا کہ میرے خیال سے ریلوے کو آپ بند ہی کر دیں، جیسے ریلوے کا ادارہ چلایا جا رہا ہے ہمیں ایسے ریلوے کی ضرورت نہیں۔

یہ بھی پڑھیئے: شیخ رشید آٹے بحران کی دلچسپ وجہ ڈھونڈ لائے

سپریم کورٹ نے شیخ رشید سے ریلوے کو منافع بخش ادارہ بنانے کے لیے پلان طلب کر لیا اور کہا کہ سرکلر ریلوے ٹریک کی بحالی کے لیے مزید وقت نہیں دیا جائے گا۔

عدالتِ عظمیٰ نے حکم دیا کہ 2 ہفتوں میں ریلوے سے متعلق جامع پلان پیش کریں۔

سپریم کورٹ نے ایم ایل 1 کی منظوری نہ ہونے پر وفاقی وزیر اسد عمر کو بھی آئندہ سماعت پر بلا لیا۔

سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں کہا کہ شیخ رشید نے عدالت کو دیے گئے پلان پر عمل نہ کیا تو ان کے خلاف توہینِ عدالت کی کارروائی ہو گی۔

سپریم کورٹ نے کہا کہ سرکلر ریلوے ٹریک سے بے گھر ہونے والوں کی بحالی ریلوے کی ذمے داری ہوگی۔

چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ سرکلر ریلوے کی 38 کنال زمین عدالتی حکم پر خالی ہوئی، کراچی میں کالا پل دیکھیں، کیماڑی جائیں دیکھیں کیا حال ہے۔

یہ بھی پڑھیئے: پاکستان ریلوے کی کتنے ہزار ایکڑ زمین پر تجاوزات ہیں؟

شیخ رشید نے چیف جسٹس سے مکالمے کے دوران کہا کہ عدالت مہلت دے، معیار پر پورا نہ اترا تو استعفیٰ دے دوں گا، آپ کہتے ہیں تو میں ابھی استعفیٰ دے دیتا ہوں۔

انہوں نے کہا کہ ایم ایل ون 14 سال پرانا منصوبہ ہے، جس پر عمل نہیں ہوا۔

چیف جسٹس نے شیخ رشید کو ہدایت کی کہ ہمارے سامنے پرانے رونے نہ روئیں، ریلوے کے پاس نہ سگنل ہے، نہ ٹریک اور نہ بوگیاں، ادارے میں لوٹ مار مچی ہوئی ہے، ریلوے افسران جس کو چاہتے ہیں زمین دے دیتے ہیں، ریلوے جا کدھر رہی ہے؟

جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ ریلوے ایم ایل ون کا فنانس کہاں سے لائے گی؟ سالانہ اربوں کا خسارہ ہو رہا ہے۔

شیخ رشید نے عدالت کو جواب دیا کہ 5 سال میں ریلوے کا خسارہ ختم ہو جائے گا، حکومت پنشن لے لے تو خسارہ آ ج ہی ختم ہو جائے گا۔

چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ ریلوے کا ہر افسر پیسے لے کر بھرتی کر رہا ہے، ایم ایل ون منصوبہ کیا جادوگری ہے؟

یہ بھی پڑھیئے: ماضی میں عمران خان کا وزیر ریلوے سے استعفے کا مطالبہ

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ٹرینیں وقت پر نہیں پہنچتیں، انجن راستے میں خراب ہو جاتے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ شیخ رشید صاحب بطور سینئر وزیر آپ کی کارکردگی سب سے اچھی ہونی چاہیے تھی، لوگ آپ کی باتیں سنتے ہیں لیکن آپ کا ادارہ سب سے نا اہل ہے۔

سپریم کورٹ آف پاکستان نے ریلوے خسارہ کیس کی سماعت 12 فروری تک ملتوی کر دی۔

سماعت کے بعد وزیرِ ریلوے شیخ رشید نے عدالت کے باہر میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ آج چیف جسٹس نے ریلوے کی بہتری اور بھلائی کے لیے احکامات دیے ہیں، چیف جسٹس کی ہدایت پر ریلوے آگے بڑھے گی۔

انہوں نے کہا کہ ساری قوم کی دل چسپی ایم ایل ون میں ہے، ہمیں 15 دن کا نوٹس دیا گیا ہے، چیف جسٹس نے ہدایت دی ہے کہ ایم ایل ون پر فی الفور ٹینڈر دیا جائے۔

شیخ رشیدنے کہا کہ عدالت کے مشکور ہیں اور چیف جسٹس کی ہدایت کے مطابق ریلوے کو آگے لے کر جائیں گے، چیف جسٹس نے جو بھی ہدایت کی ہے اس پر عمل کریں گے۔

یہ بھی پڑھیئے: ریلوے کا خسارہ 4 سال میں ختم کریں گے، شیخ رشید

انہوں نے کہا کہ آڈٹ رپورٹ ہمارے دور کی نہیں 2013ء سے 2017ء تک کی ہے، جب ہمارے دور کی آڈٹ رپورٹ آئے گی تو اس پر اعتراضات کا جواب دیں گے۔

شیخ رشید کا نے استعفے کے حوالے سے سوال پر صحافی کو جواب دیا کہ چیف جسٹس کہیں تو ابھی استعفی دے دوں گا، مگر آپ کی خواہش پر نہیں۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ جتنا عرصہ وزیرِ اعظم عمران خان رہیں گے اتنا ہی عرصہ وزیرِ اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار بھی رہیں گے۔

سپریم کورٹ آف پاکستان میں ریلوے خسارہ کیس کی سماعت کے دوران وفاقی وزیرِ ریلوے شیخ رشید احمد کے علاوہ سیکریٹری اور چیف ایگزیکٹو ریلوے بھی پیش ہوئے ہیں۔

عدالت میں پیشی سے قبل میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر ریلوے شیخ رشید کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ میں گزشتہ دورِ حکومت کی آڈٹ رپورٹ پیش کی گئی۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ عدالت کو بتاؤں گا کہ یہ آڈٹ رپورٹ 2013ء سے 2017ء تک کی ہے، موجودہ حکومت کی آڈٹ رپورٹ آنے میں وقت لگے گا، ایک ووٹ سے حکومت بن یا گر سکتی ہے تو پھر میں کمال کا آدمی ہوں۔

یہ بھی پڑھیئے: ریلوے خسارہ کیس، شیخ رشید کل سپریم کورٹ میں طلب

واضح رہے کہ گزشتہ روز چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد نے سماعت کے دوران پاکستان ریلوے کی آڈٹ رپورٹ پر برہمی کا اظہار کیا تھا اور ریمارکس دیے تھے کہ ریلوے کرپٹ ترین ادارہ ہے، جس میں کوئی بھی چیز درست انداز میں نہیں چل رہی۔

انہوں نے کہا تھا کہ ہر روز حکومتیں گرانے اور بنانے والوں سے اپنی وزارت نہیں چل رہی، پورا محکمہ سیاست میں پڑا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ مسافر اور مال گاڑیاں چل رہی ہیں نہ ریلوے اسٹیشن ٹھیک ہیں، نہ ٹریک، نہ ہی سگنل، ریل کا ہر مسافر خطرے میں سفر کر رہا ہے۔


انہوں نے کہا کہ دنیا بلٹ ٹرین چلا رہی ہے جبکہ ہم اٹھارہویں صدی کی ریل چلا رہے ہیں، چولہے میں پھینک دیں اپنی انکوائری، آپ کا سارا ریکارڈ مینوئل ہے، اس کا مطلب ہے کہ ایک لاکھ کی ریکوری میں 25 ہزار ظاہر کیے جاتے ہیں جبکہ 75ہزار غائب ہو جاتے ہیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے دورانِ سماعت کہا کہ ریلوے کو اربوں روپے کا خسارہ ہو رہا ہے، آڈٹ رپورٹ نے واضح کر دیا ہے کہ ریلوے کا نظام چل ہی نہیں رہا۔

دورانِ سماعت سپریم کورٹ نے ریلوے سے متعلق آڈٹ رپورٹ میں آنے والے حقائق پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید احمد، سی ای او ریلوے اور سیکریٹری ریلوے کو آج طلب کیا تھا۔

تازہ ترین